Saturday 29 April 2017

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے 
کیا بنے بات جہاں بات بتائے نہ بنے 

میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل 
اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے 

کھیل سمجھا ہے کہیں چھوڑ نہ دے بھول نہ جائے 
کاش یوں بھی ہو کہ بن میرے ستائے نہ بنے 

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر 
کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے 

اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا 
ہاتھ آویں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے 

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے 
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے 

موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے 
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے 

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے 
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے 

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ 
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے 

No comments:

Post a Comment

Featured post

Zid pe a jaun toh, ji bhar ke sata kar chorrun

Popular