آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا.
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا.
بے وقت .اگر جاوں گا سب چونک پڑیں گے.
ایک مدت ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا.
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں.
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا.
جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر ہے.
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا.
خط ایسا لِکھا. جیسے نگینے جڑے ہوں.
وہ ہاتھ جِس نے کبھی زیور نہیں دیکھا۔
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں.
تم نے میرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا.
یاروں کی محبت کا کر لیا یقین میں نے.
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا.
پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا.
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا.
وہ شخص میرے مسائل کو سمجھ نہیں سکتا.
جس نے میری آنکھوں میں سمندر نہیں دیکھا.
شاعر
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment